منگل 30 دسمبر 2025 - 20:13
جواد الائمہؑ؛ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

حوزہ/ امام جوادؑ تقویٰ و پارسائی کا مجسم نمونہ تھے۔ عبادت، ذکرِ الٰہی اور طویل سجدے آپؑ کی حیاتِ مبارکہ کا حصہ تھے۔ اسی کے ساتھ آپؑ حریت و آزادگی کی علامت تھے اور ظلم و جبر کے سامنے کبھی سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ یہ صفت تمام ائمہ اہلِ بیتؑ میں مشترک نظر آتی ہے۔

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی

حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فر ماتے ہیں :”توبہ میں تاخیر کرنا دھوکہ ہے ،اور توبہ کرنے میں بہت زیادہ دیرکرنا حیرت و سرگردانی کا سبب ہے ،خدا سے ٹال مٹول کرنا ہلاکت ہے اور بار بار گناہ کرنا تدبیر خدا سے بے خوف ہونا ہے ،خداوند عالم کا فرمان ہے :(فلایاْمَنُ مَکْرَ اﷲِ ِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ)”۔ (سورہ اعراف، آیت 99)

”مکر خدا سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی بے خوف ہوتے ہیں ” (تحف العقول ،صفحہ 456)

دس رجب، شیعیانِ عالم کے نویں امام حضرت امام محمد تقی، جواد الائمہؑ—ثامنُ الحجج حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے نورِ نظر اور سکون دل کی ولادتِ باسعادت کا یادگار دن ہے۔اس پر مسرت موقع پرآپ تمام احباب کی خدمت میں بالخصوص بارگاہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں

مختصر عمر، عظیم خدمات اور درخشاں اخلاقی مقام و منزلت:

نہمیں امام، جن کا اسمِ گرامی محمد، کنیت ابو جعفر اور مشہور ترین القاب تقی اور جواد ہیں، دس رجب المرجب اور ایک روایت کے مطابق انیس رمضان المبارک سنہ 195 ہجری قمری کو مدینۂ منورہ میں چشمِ جہاں سے جلوہ گر ہوئے۔ آپؑ کے والدِ بزرگوار حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ آلاف التحیۃ والثناء تھے، جبکہ آپؑ کی والدۂ ماجدہ ایک نہایت پرہیزگار خاتون سبیکہ تھیں، جنہیں امام رضا علیہ السلام خیزران کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے۔جو اخلاقی فضائل میں اپنے عہد کی ممتاز خاتون شمار ہوتی تھیں۔ امام رضاؑ اپنی زوجہ کو پاکیزگی، عفت اور بلند اخلاق میں ممتاز قرار دیا کرتے تھے۔¹

امام جوادؑ کی کم شناخت کے اسباب:

تاریخی اعتبار سے امام جوادؑ کی نسبت کم شناخت کی دو بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی وجہ آپؑ کی کم سنی اور مختصر عمر ہے؛ آپؑ آٹھ برس کی عمر میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے اور پچیس برس کی عمر میں شہادت پائی۔² دوسری وجہ آپؑ کا وہ مخصوص تاریخی دور ہے جس میں عباسی خلافت اندرونی کمزوریوں اور سیاسی کشمکش کا شکار تھی، خصوصاً مامون اور معتصم کے ادوار میں۔ اس دور کی پیچیدگیوں نے امامؑ کی سماجی اور تبلیغی سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔³

اخلاقی اور علمی اوصاف:

امام جوادؑ اخلاقِ نبوی کے کامل مظہر تھے۔ حسنِ اخلاق، حلم، بردباری، تواضع اور عفو و درگزر آپؑ کی نمایاں صفات تھیں۔ قرآنِ مجید میں رسولِ اکرم ﷺ کے اخلاق کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے، اور ائمہ اہلِ بیتؑ اسی اخلاقی وراثت کے امین تھے۔⁴

علم کے میدان میں بھی امام جوادؑ کا مقام غیر معمولی ہے۔ آپؑ کم عمری کے باوجود علمِ لدنّی کے حامل تھے اور اپنے زمانے کے جید علماء کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ شیعہ عقیدے کے مطابق یہ علم قدرتِ الٰہی سے رسولِ اکرم ﷺ سے امیرالمؤمنینؑ اور پھر نسل در نسل ائمہؑ کو منتقل ہوا۔⁵

تقویٰ، عبادت اور آزادگی:

امام جوادؑ تقویٰ و پارسائی کا مجسم نمونہ تھے۔ عبادت، ذکرِ الٰہی اور طویل سجدے آپؑ کی حیاتِ مبارکہ کا حصہ تھے۔ اسی کے ساتھ آپؑ حریت و آزادگی کی علامت تھے اور ظلم و جبر کے سامنے کبھی سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ یہ صفت تمام ائمہ اہلِ بیتؑ میں مشترک نظر آتی ہے۔⁶

کراماتِ امام جوادؑ:

امام جوادؑ کی ولادت خود ایک عظیم الٰہی کرامت تھی۔ امام رضاؑ نے متعدد مواقع پر آپؑ کو اسلام کا سب سے بابرکت مولود قرار دیا۔⁷ اسی طرح کم عمری میں منصبِ امامت کا عطا ہونا اور علمی مناظروں میں غیر معمولی کامیابی آپؑ کی امامت کی حقانیت پر واضح دلیل ہے، جیسا کہ انبیاء سابقین میں حضرت عیسیٰؑ کی مثال ملتی ہے۔

شاگرد اور علمی اثرات:

مختصر عمر کے باوجود امام جوادؑ نے ایسے جلیل القدر شاگرد تربیت دیے جنہوں نے اسلامی علوم و معارف کو فروغ دیا۔ حضرت عبدالعظیم حسنیؒ، علی بن مہزیار اہوازیؒ، فضل بن شاذان نیشاپوریؒ اور دعبل خزاعیؒ آپؑ کے نمایاں شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔⁸

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ امام جوادؑ سے صرف شیعہ محدثین ہی نہیں بلکہ اہلِ سنت کے علماء نے بھی احادیث روایت کی ہیں، جن میں خطیب بغدادی اور دیگر محدثین کے نام قابلِ ذکر ہیں۔⁹

شہادت اور مزارِ اقدس:

عباسی خلیفہ مامون نے سیاسی مقاصد کے تحت اپنی بیٹی ام الفضل کا نکاح امام جوادؑ سے کیا، مگر اس تدبیر سے وہ اپنے اہداف حاصل نہ کر سکا۔ مامون کی وفات کے بعد معتصم عباسی کے حکم پر امامؑ کو بغداد بلایا گیا، جہاں 220 ہجری قمری میں آپؑ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔¹

آپؑ کا روضۂ مبارک آج کاظمین (بغداد) میں اپنے جد امجد حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کے پہلو میں واقع ہے، جو دنیا بھر کے اہلِ ایمان کے لیے مرکزِ عقیدت اور مرجعِ حاجات ہے۔

"سلام الله علیه یوم وُلد و یوم استشهد و یوم یُبعث حیّا"

سلام ہو آپؑ پر جس دن آپؑ پیدا ہوئے، جس دن آپؑ شہید کیے گئے اور جس دن آپؑ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔

________________________________________

حوالہ جات

1. شیخ مفید، الارشاد

2. شیخ طوسی، تاریخ الائمہ

3. آغا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ

4. قرآنِ مجید، سورۂ احزاب: 21

5. شیخ کلینی، الکافی

6. علامہ برقی، المحاسن

7. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا

8. فضل بن شاذان، روایاتِ منقولہ

9. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد

10. ابنِ شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha